Monday, May 4, 2009

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی


 
کچھ شعراء کا خیال ہوتا ہے کہ اگر غزل میں ایک یا دو شعر بھی اچھے نکل گئے تو غزل سمجھو پار لگی، بہتر شاعر کم از کم تین جاندار اشعار کا التزام کرتے ہیں، مطلع، حسنِ مطلع اور مقطع، اور کسی غزل کے سارے اشعار کا خوب ہونا اور اس میں کسی بھرتی کے شعر کا نہ ہونا واقعی ایک مشکل کام ہے لیکن ایک غزل کے تمام اشعار کا ادب میں اپنا مستقل مقام حاصل کرنا چند خوش نصیب شاعروں اور غزلوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔ انہی میں سے جوش ملیح آبادی کی یہ غزل ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے، جوش گو غزل کے شاعر نہیں تھے بلکہ نظم اور رباعی ان کو زیادہ پسند تھی لیکن ایسی طرح دار غزلیں بھی کہی ہیں کہ بڑے بڑے غزل گو شعراء کے حصے میں ایسی غزلیں نہیں ہیں۔

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا


وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا


دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا


اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا


اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا


اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا


مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
--------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
سوزِ غم دے - فاعلاتن
کِ مجے اس - فعلاتن
نِ یہ ارشا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
جا تجے کش - فاعلاتن
مَ کَ شے دہ - فعلاتن
ر سِ آزا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن