Tuesday, December 18, 2007

کسی کے پیار کی خوشبو ھوا میں شامل ھے

تو بےوفا میرے دل کی صدا میں شامل ھےنظر سے دور ھی سہی دعا میں شامل ھے
میں اعتبار تمھارا کروں تو کیسے کروںدغا،فریب،تمہاری ادا میں شامل ھے
تمھارے ھاتھ سے یہ عمر بھر نہ چھوٹے گامیرے لہو کا رنگ-رنگ حنا میں شامل ھے
وہ مار ڈالے گا مل کر گلے محبت سےزھر خلوص کا اس کی دوا میں شامل ھے-
خدا کا شکر ھے کہ مٹنے کا غم تو دور ھواھمارا زکر کسی کی وفا میں شامل ھے-
مہک رھیں ھیں میرے دل کی وادیاں دیکھوکسی کے پیار کی خوشبو ھوا میں شامل ھے-!!!!

چاند تم سے شکائتیں ھیں بہت چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت

چاند تم سے شکائتیں ھیں بہت چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
چاند تم ہو بہت ہی آوارہ
کتنی راتیں نظر نہیں آتے پھرتے رہتے ہو جابجا یونہی
پر کبھی میرے گھر نہیں آتے
چاند تم دور دور رہتے ہو
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
کس محبت میں زخم کھائے ہیں
دل پہ اتنے جو داغ رکھتے ہو
یہ کہانی کبھی سناتے نہیں
آسماں پر دماغ رکھتے ہو
چاند تم بولتے نہیں ہم سے
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
چاند تم ایک سے نہیں رہتے
شکل اور راستے بدلتے ہو
چاند تم رات کو تن تنہا
ایسے ویسوں کے ساتھ چلتے ہو
اک نظر دیکھتے نہیں ہم کو
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
چاند جب بھی ملے کبھی موقع
چھپتے رہتے ہو ایسے چپکے سے
پیڑاور بادلوں کے پیچھے تم
حسن گھٹتا ہو جیسے دیکھے سے
ہاتھ آتے نہیں کسی صورت
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
میری آنکھوں میں کچھ کمی ہے کیا
جھیل میں دیکھتے ہو عکس اپنا
آئینے میں اتار کر تم کو
کوئی تعبیر کرنا ہے سپنا
خواب کیا ہیں یہ جانتے ہی نہیں
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت
روشنی مستعار ہے پھر بھی
جانے کس بات کی بڑائی ہے
ہم سے ملتے ہو اجنبی کی طرح
جب کہ بچپن سے آشنائی ہے
چاند تم سے گلہ نہیں کوئی
چاند تم سے شکا ئتیں ہیں بہت ::

Thursday, October 25, 2007

غزل از میر تقی میر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا دارا جانے ہے
چارہ گری بیماریء دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت اک سے نہ واقف ان میں سے
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ اٹھتا ہے دیکھے سے اس کو
یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارا جانے ہے
تشنہء خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

Monday, October 22, 2007

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

غزل از نواب داغ دہلوی
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا