غزل از میر تقی میر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا دارا جانے ہے
چارہ گری بیماریء دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
چارہ گری بیماریء دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت اک سے نہ واقف ان میں سے
مہر و وفا و لطف و عنایت اک سے نہ واقف ان میں سے
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ اٹھتا ہے دیکھے سے اس کو
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ اٹھتا ہے دیکھے سے اس کو
یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارا جانے ہے
تشنہء خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
تشنہء خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے