Thursday, October 25, 2007

غزل از میر تقی میر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے، اپنا دارا جانے ہے
چارہ گری بیماریء دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت اک سے نہ واقف ان میں سے
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ اٹھتا ہے دیکھے سے اس کو
یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دوبارا جانے ہے
تشنہء خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

No comments: